سائنس کی دنیا میں نت نئی انکشافات کرنے کے لیے سائنس دان طر ح طر ح کی تحقیقات کررہے ہیں ۔حال ہی ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے نظام شمسی کے باہر تین نئےسیاروں کاپتہ لگایا ہے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ 31 نوری سال کے فاصلے پر ستاروں کے ایک جھرمٹ میں موجود ان سیاروں میں سے ایک ممکنہ طور پر قابل رہائش بھی ہوسکتا ہے۔ایسے سیاروں کو فلکیات کی اصطلاع میں ’’ایکسو پلانٹ ‘‘یا ’’زمین کے نظام شمسی ‘‘ سے باہر پائے جانے والے سیارے کہا جاتا ہے ۔ان کی موجودگی کی تصدیق میں جرمن شہر گوئٹنگن کے محققین بھی شامل تھے ۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تینوں سیارے زمین سے 31 نوری سال کے فاصلے پر واقع ستاروں کے ہائیڈرانامی جھرمٹ کے ایک ستارے جی جے تین سو ستاون (GJ 357) کے گرد اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں ۔گرچہ ایک نوری سا ل وہ فاصلہ ہوتا ہے ،جو روشنی سال بھر میں طے کرتی ہے ،پھر بھی یہ تینوں سیارے زمین سے قدرے قریب ہیں ۔
اس لیے زمین کا نظام شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے ،اس کے ایک سرے سے دوسرےسرے تک پہنچنے کے لیے تقریباًایک لاکھ نوری سال تک کا عر صہ لگ سکتا ہے۔ان سیاروں کا پہلا مشاہدہ رواں سال فروری کے ماہ میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے ٹرانزٹنگ ایکسو پلانٹ سروے سیٹلائٹ (TESS) کے ذریعے کیا گیا تھا ۔ان تین نئے دریافت شدہ سیاروں میں سے ایک جس کانام GJ357d ہے ،وہ ممکنہ طور پر قابل رہائش بھی ہو سکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اس سیارے پر اوسط درجہ ٔ حرارت کا اندازہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ لگایا گیا ہےلیکن ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ان میں سے ایک سیارے کو GJ357b کا نام دیا گیا ہے ،جسے سائنس دان گرم زمین بھی کہہ رہے ہیں اور اس کا تخمینہ 250 ڈگری سینٹی گریڈ لگا یا گیا ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سیارہ اپنے ستارے GJ357کے گرد گردش کرتے ہوئے اسے کافی حد تک اپنے سائے سے ڈھانپ دیتا ہےاور یوں اس کی روشنی کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے ۔
جرمنی میں گوئٹنگن یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات کے ادارے کے محقق شٹیفان ڈرائسلر کا کہنا ہے کہGJ357d پر موجود درجہ ٔ حرارت کا زمین پر دستیاب جدید ترین آلات کی مدد سے لگایا گیا تخمینہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ ہے ،جو بہت ہی کم یعنی منجمد کردینے والا ٹیمپریچر ہے ۔اس کے باوجود ماہرین کو لگتا ہے کہ یہ سیارہ قابل رہائش ہوسکتا ہے ۔ شٹیفان ڈرائسلر کے مطابق، اس سیارے کا اپنے ستارے سے خلائی فاصلہ تقریبا ًاتنا ہی بنتا ہے، جتنا ہمارے نظام شمسی میں مریخ کا سورج سے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر اس سیارے کی فضا ‘مقیدیعنی بیرونی طبعی اثرات سے محفوظ ہے، جس کا مستقبل میں تعین کیا جا سکے گا، تو یہ اس حد تک حدت کو محفوظ رکھ سکے گا کہ یہ گرم بھی ہو سکے اور اس کی بالائی سطح پر مائع پانی بھی پایا جائے۔
گوئٹنگن یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق جس سیارے کے ممکنہ طور پر قابل رہائش ہونے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں، اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے اس کے ستارے سے اتنی ہی مناسب توانائی ملتی ہے، جتنے ہمارے نظام شمسی میں سورج سے مریخ کو ملتی ہے ۔ا ن تین میں سے جس درمیان والے سیارے کو GJ 357 c کا نام دیا گیا ہے، اس کا درجۂ حرارت 130 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور اس کی کمیت زمین کی کمیت سے کم از کم تین سے چار گنا زیادہ ہے۔